August 08, 2012

لاہوریوں کو ’شریف دودھ‘ پلانے کے لیے پولیس کا استعمال: بشکریہ ٹاپ اسٹوری آن لائن

لاہور ( مریم حسین) پنجاب حکومت کے بڑوں کے کہنے پر لاہور میں بیس سالہ پرانے دودھ پلانٹ پر پولیس کے ذریعے قبضہ کرا نے کے بعد اب اس کے چیف ایگزیکٹو امیر بخاری کو پولیس اور انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے اہلکاروں کے ذریعے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کا انکشاف ہوا ہے تاکہ شریف فیملی کے چنیوٹ میں شروع کیے گئےAnhara دودھ کے کاروبار کا دائرہ کار لاہور تک وسیع کیا جائے۔ ہلہ دودھ کی مارکیٹ میں موجودگی سے انہارا دودھ کو اپنی جگہ بنانے میں مشکل کا سامنا تھا کیونکہ ہلہ دودھ صرف ستر روپے فی لٹر مل رہا تھا جبکہ انہارا کا ریٹ نوے روپے فی لٹر بتایا جا رہا ہے۔
ٹاپ سٹوری آن لائن کو یہ کنفرم کیا گیا ہے کہ ادارہ کسان کے چیف ایگزیکٹو امیر بخاری کو سوموار کو گرفتار کر کے پہلے ایک رات لاہور کے ایک تھانے میں رکھا گیاجہاں ان پر تشدد کیا گیا اور پھر منگل کو انہیں انٹی کرپشن کے حوالے کیا گیا تاکہ ان سے اعترافی بیانات کرائے جائیں۔ اس کا مطلب اس ادارے کے ساتھ 1996 میں پنجاب حکومت کے کیے گئے ایک ایسے معاہدے کو ختم کرانا ہے جس کی مدت معیاد دو ہزار سولہ میں ختم ہونا ہے۔ پنجاب حکومت نے لاہور کا یہ سرکاری ملک پلانٹ ادارہ کسان کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے طور پر کیا تھا جب اس ملک پلانٹ کا نقصان دس کروڑ روپے ہو چکا تھا۔ اب جب کہ ادارہ کسان اس ملک پلانٹ کو منافع میں چلا رہا تھا تو اچانک لاہور کے پلانٹ پر پولیس بھیج کر قبضہ کر لیا گیا اور اس کے ساتھ ہی کروڑں روپے کی مشینری جو کہ ادارہ کسان نے خود خریدی تھی اس پر بھی قبضہ کر لیا گیا۔
مختلف ذرائع سے اکھٹی کی گئی تفصیلات کے مطابق، ادارہ کسان 1984 میں پنجاب میں شروع کیا گیا تھا اور اس کا آغاز پاکستان کے مایہ ناز بیوروکریٹ اور ماہر زراعت ڈاکٹر ظفر الطاف نے کیا تھا جنہوں نے کسانوں کی فلاح اور بہتری کے لے کواپریٹو کا نعرہ مارا اور کسانوں کے لیے کام شروع کیا۔ اس سیکم کے تحت پنجاب کے کسانوں کو اکھٹا کیا گیا اور انہیں جانوروں سے متعلقہ بہت سارے فوائد دیے گئے۔ اس دروان پنجاب حکومت کا اپنا دودھ پلانٹ جو کہ لاہور کے والٹن روڈ پر واقع تھا وہ نقصان میں جانے لگا اور پتہ چلا کہ ایک وقت پر اس کا نقصان دس کروڑ روپے ہو چکا تھا۔ اس پر پنجاب حکومت نے ادارہ کسان کے ساتھ ایک لیز معاہدہ کیا جس کی میعاد بیس برس رکھی گئی تھی۔ اس معاہدے کے تحت ہلہ دودھ کی پیداوار شروع کی گئی اور لاہور میں لوگوں کو سستا دودھ ، گھی، دہی اور دیگر پروڈکٹس ملنا شروع ہو گئیں۔ منافع میں سے پنجاب حکومت کو بھی حصہ ملنے لگا۔
اس ادارے میں پنجاب حکومت کی طرف سے سیکرٹری فنانس اور سیکرٹری لائیو سٹاک اس ادارے کے بورڈ کے ممبر تھے تاکہ وہ اس کے کام پر نظر بھی رکھ سکیں اور حکومت کے مفادات کا خیال بھی۔ بہت جلد یہ ادارہ کامیابی سے چلنے لگا۔ اس دروان ہلہ دودھ نے پنجاب بھر میں کسانوں کی تنظمیں بنائیں اور ان سے دودھ خریدا جانے لگا اور لاہور میں مارکیٹ ہونے لگا۔ پنجاب میں 35000 دیہاتی خواتین کو ہلہ دودھ نے اپنی کواپریٹو کا ممبر بنایا اور ان سے نہ صرف دودھ خریدا جاتا تھا بلکہ انہیں آسان شرائط پر قرضے کی سہولت بھی دی جانے لگی۔ کسانوں کو ان کے جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے بھی پروگرام شروع کیے گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ دودھ پیدا کیا جا سکے۔ اس سے دیہاتی علاقوں میں کسانوں اور عورتوں کی کمائی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
اس دروان ہلہ دودھ کی کامیابی سے متاثر ہو کر فیڈرل حکومت نے بھی اپنے سرکاری دودھ پلانٹ کا معاہدہ ادارہ کسان کے ساتھ کیا اور یہاں بھی یہ کامیابی سے چلنا شروع ہوگیا۔
anhaar milk
تاہم جب پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت شروع ہوئی تو مسائل نے سر اٹھانا شروع کیا اور شریف فیملی نے خود دودھ کا کاروبار شروع کرنے کا منصوبہ بنایا اور پہلے مرحلے میں چنیوٹ میں دودھ کا پلانٹ حمزہ شہباز نے لگایا۔ اس سلسلے میں مدد لینے کے لیے حمزہ شہباز نے ہلہ دودھ لاہور پلانٹ کے دورے شروع کر دیے۔ حمزہ کا کہنا تھا کہ انہیں ٹیکنکل مدد کی ضرورت ہے جو اسے امیر بخاری نے فراہم کرنا شروع کر دی کہ وہ کس طرح چنیوٹ اور اس کے قریبی علاقوں میں اپنا دودھ کا کاروبار بہتر کر سکتے ہیں۔ اس دروان حمزہ شہباز کو یہ محسوس ہوا کہ کیوں نہ ہلہ دودھ ہی بند کرایا جائے اور پنجاب حکومت کی لیز ختم کرا دی جائے۔ حمزہ کو پتہ چلا کہ ادارہ کسان اور پنجاب حکومت کی لیز دو ہزار سولہ میں ختم ہو گی اور اس دروان اگر دو ہزار تیرہ میں انتخابات ہوتے ہیں تو کچھ علم نہیں ہے کہ کون جیتتا ہے۔ اس لیے فیصلہ کیاگیا کہ بہتر ہوگا کہ ابھی سے کچھ ایسا انتظام کیاجائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
اس دروان نواز لیگ کے ایم این اے سعد رفیق کی آنکھ ہلہ دودھ پلانٹ پر پڑی جہاں پندرہ ایکڑ زمین موجود تھی۔ انہوں نے پنجاب حکومت سے کہا کہ ہلہ دودھ کی لیز ختم کر کے اس کی جگہ کالج بنا دیا جائے۔ ہلہ دودھ انتظامیہ کی چیخ و پکار کے باوجود بھی اس پر پولیس بھیج کر قبضہ کر لیا اور ہلہ دودھ پلانٹ کوبند کر دیا گیا۔ ہلہ دودھ کی انتطامیہ نے لاہور ہائی کورٹ سے حکم امتناعی لے لیا تاہم اس کے باوجود بھی وہاں قبضہ پولیس کا رہا اور سعد رفیق نے زور شور سے وہاں کام شروع کرا دیا۔ یوں جہاں لاہور کے شہریوں کو دودھ سپلائی کیا جارہا تھا وہاں پولیس بیٹھ گئی۔
لاہور ملک پلانٹ کی کامیابی سے خوش ہو کر اس سے پہلے پچھلے سال پنجاب حکومت نے ادارہ کسان کے ساتھ ایک اور معاہدہ کیا کہ وہ ضلع لیہ میں بھی ملک پلانٹ شروع کرے اور اس سلسلے میں زراعت کے وزیر احمد علی اولکھ پیش پیش تھے۔ اس سلسلے میں لیہ میں پراجیکٹ پر کام شروع ہو گیا۔تاہم لیہ کے ڈپٹی کمشنر جاوید اقبال نے امیر بخاری کو کہا کہ پہلے ان کے بندے اس پراجیکٹ میں بھرتی کیے جائیں۔ تاہم اس دروان یہ پراجیکٹ تاخیر کا شکار ہونا شروع ہوگیا کیونکہ بیوروکریسی نے اس میں روڑے اٹکانا شروع کر دیے تھے۔
جب حمزہ شہباز نے ایک دفعہ فیصلہ کر لیا کہ انہوں نے لاہور میں بھی اپنے دودھ کی مارکیٹنگ کرنی ہے تو انہوں نے نے لیہ کے ایم پی اے قیصر مگسی سے ایک درخواست پہلے پولیس کو دلوائی اور پھر انٹی کرپشن لاہور میں ایک اور مقدمہ درج کرایا کہ لیہ کے پراجیکٹ میں بے ضابطیگیاں کی گئی ہیں۔ ان الزامات پر ادارہ کسان کے چیف ایگزیکٹو امیر بخاری کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے بعد اسے لاہور کے ایک تھانے میں رکھا گیا اور پوری رات اس پر تشدد ہوتا رہا۔ اس تشدد کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح اسے مجبور کیا جائے کہ وہ ہلہ دودھ کی مشینری اور دیگر سامان اور چیزوں سے دست بردار ہوجائے۔ اگلے دن اسے انٹی کرپشن کے حوالے کر دیا اور اب اس پر تشدد کیا جارہا تھا۔
جب لاہور میں متلعقہ تھانے سے رابطہ کیا گیا جہاں امیر بخاری کو رکھا گیا تھا تو انہوں نے تشدد کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں منگل کو انٹی کرپشن والے اٹھا کر لے گئے تھے اور وہ اب ان کی تحویل میں ہیں۔
انٹی کرپشن کے ایک ذمہ دار افسر نے اس بات کی تصدیق کی کہ امیر بخاری ان کی حراست میں ہیں کیونکہ اس پر ہلہ دودھ لیہ پراجیکٹ میں کرپشن کے الزامات لگے ہیں اور وہ ان کی تفتیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ان پر حمزہ شہباز کا کوئی دباؤ تھا۔
ہلہ دودھ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ان کے پلانٹ اور مشینری پر قبضہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے یہ پلانٹ اور مشینری پندرہ برس قبل تین کروڑ روپے میں خریدی تھی اور آج مارکیٹ میں اس کی قیمت تیس کروڑ روپے تھی لہذا کچھ طاقتور لوگوں نے پہلے کالج کے نام پر اس زمین پر قبضہ کر لیا اور اب مشینری پر قبضہ کرنے کے لیے ان کے چیف ایگزیکٹو امیر بخاری پر جھوٹے مقدمے کر کے انہیں تھانے میں تشدد کا نشانہ بنا کر اعتراف جرم کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

0 comments:

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Best Buy Coupons