Thursday, August 02, 2012
Unknown
No comments
|
| | وہ موجِ تبسّم شگفتہ شگفتہ ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی وہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے ، وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی کفِ دست نازک حنائی حنائی ، وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی وہ باتوں میں جادو اداؤں میں ٹونا ، وہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی کبھی خوش مزاجی ، کبھی بے نیازی، ابھی ہوشیاری ، ابھی نیم خوابی قدم بہکے بہکے نظر کھوئی کھوئی ، وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی نہ حرفِ تکلّم ، نہ سعیِ تخاطب ، سرِ بزم لیکن بہم ہم کلامی ادھر چند آنسو سوالی سوالی ، اُدھر کچھ تبسّم جوابی جوابی وہ سیلابِ خوشبو گلستاں گلستاں ، وہ سروِ خراماں بہاراں بہاراں فروزاں فروزاں جبیں کہکشانی ، درخشاں درخشاں نظر ماہتابی نہ ہونٹوں پہ سرخی ، نہ آنکھوں میں کاجل ، نہ ہاتھوں میں کنگن ، نہ پیروں میں پائل مگر ھُسنِ سادہ مثالی مثالی ، جوابِ شمائل فقط لاجوابی وہ شہرِ نگاراں کی گلیوں کے پھیرے ، سرِ کوئے خوباں فقیروں کے ڈیرے مگر حرفِ پُرسش ، نہ اِذنِ گزارش ، کبھی نامُرادی کبھی باریابی یہ سب کچھ کبھی تھا ، مگر اب نہیں ہے کہ آوارہ فرہاد گوشہ نشیں ہے نہ تیشہ بدوشی ، نہ خارہ شگافی ، نہ آہیں ، نہ آنسو ، نہ خانہ خرابی کہ نظروں میں اب کوئی شیریں نہیں ہے ، جدھر دیکھیئے ایک مریم کھڑی ہے نجابت ساپا ، شرافت تبسّم ، بہ عصمت مزاجی ، بہ عفّت مآبی جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں ، جن آنکھوں میں جادو تھا ، اب باؤضو ہیں یہ پاکیزہ چہرے ، یہ معصوم آنکھیں ، نہ وہ بے حجابی ، نہ وہ بے نقابی وہ عشقِ مجازی حقیقت میں ڈھل کر تقدّس کی راہوں پہ اب گامزن ہے جو حُسنِ نگاراں فریبِ نظر تھا ، فرشتوں کی صورت ہے گِردوں جنابی وہ صورت پرستی سے اُکتا گیا ہے ، خلوصِ نظر اور کچھ ڈھونڈتا ہے نہ موجِ تبسّم ، نہ دستِ حنائی ، نہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی نہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی ، نہ مخمور لہجہ شرابی شرابی نہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے ، نہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی ۔( اقبال عظیم ) | |
| |
|
|
Email This
BlogThis!
Share to Facebook
0 comments:
Post a Comment